Usama Ahmed s/o Muhammad Ilyas اسامہ احمد ولد محمد الیاس
محلہ اڈے والا لدھیوالہ وڑائچ کا شادی شدہ عورتوں کو ورغلانے والا لچا
محمد فرحان عرف چودھری فرحان ولد حبیب سلطان ساکن پڑیال تحصیل و ضلع راولپنڈی کے کیریر کا آغاز آصف علی زرداری کے دور حکومت میں راولپنڈی میں 26 سٹاپ والے ٹول پلازے پر 15 ہزار روپے ماہوار کی ملازمت سے ہوا تھا جہاں وہ بڑی گاڑیوں کو ٹول پر کچھ ڈسکاونٹ دے کر ٹول کی وصول کردہ رقم اپنی جیب میں ڈالتا رہا اور بذریعہ ایک مخصوص ٹیکسی ڈرائیور یہ رقم اپنے گاؤں پڑیال پہنچاتا رھا جو راولپنڈی سے 50 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے ۔ البتہ کسی کو اس بات کا صحیح علم نہیں کہ فرحان نے ایسا منافع بخش کام کیوں چھوڑ دیا ۔ کیا وہ پکڑا گیا تھا یا ٹیکسی والا ہی اگے سے اسکے پیسے کھا گیا تھا جیسا کہ اسکے بڑے فوجی بھائی کے ساتھ اٹک ٹول پلازے پر تعیناتی کے دوران ہوا تھا جس پر اٹک شہر میں باقائدہ جرگا بھی لگا تھا جس میں رقم کا ذریعہ معلوم ہونے پر جیت ٹیکسی والے کی ہوئی تھی ۔ اٹک ٹول پلازے سے فرحان کے بڑھے فوجی بھائی کی اتنی اوپر کی کمائی تھی کہ اس نے 4 ماہ میں پلاٹ خرید لیا تھا ۔ اسی طرح فرحان کا چھوٹا بھائی پڑیال گاؤں میں گلی میں اپنے گھر تک دانے ڈال دیتا ہے اور انکے دروازے تک پہنچتے ہی اغواہ ہو جاتی ہے ۔ اسکے فوری بعد فرحان نے بھارہ کہؤ گورمنٹ ہائ اسکول میں 16 ہزار روپے ماہوار کی عارضی کلرک کی ملازمت خرید لی جس سے اسکول کو سالانہ ملی مرمت کی سرکاری رقم سے بھی اسکی اوپر کی کمائ ہوتی رہی ۔ اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا سوان گارڈن بلاک جی مرکز میں پارٹنرشپ پر ہوسٹل کا کاروبار تھا ۔ جب ہوسٹل کے باورچی کو ایک ہفتے کے لئے کراچی جانا پڑا تو فرحان نے ایک ہفتے کی چھٹی کے عوض اپنی خدمات پیش کیں اور اس ہفتے باورچی خانے کا فرش سبزی کے چھلکوں اور نسوار کی پچکاریوں سے بھر گیا ۔ ہوسٹل کی ہوا لگنے کے بعد فرحان نے کسی ٹیچر سے 10 ہزار روپے تو کسی سے 20 ہزار روپے مانگ کر ہیڈ ماسٹر کے پارٹنر کو 1 لاکھ 70 ہزار روپے دے کر فارغ کر دیا ۔ پارٹنر بنتے ہی فرحان کی شخصیت یکدم بدل گئ اور پہلے منافع بخش ہوسٹل یکدم خسارے میں چلا گیا اور 27 ہزار روپے ماہوار کا سودا سلف 47 ہزار روپے میں آنے لگ گیا اور ہوسٹل میں چوریں ہونے لگ گئیں ۔ جب ہیڈ ماسٹر کو علم ہوا کہ فرحان خسارے کے دوران ٹیچروں کا قرض اتار رہا ہے تو دونوں پارٹنروں میں ان بن بھا ہوئ ۔ ہیڈ ماسٹر شریف آدمی تھا جبکہ فرحان کے اپنے گاؤں پڑیال میں کئی جھگڑے اور مک مکائیاں ہو چکیں تھیں ۔ مسلسل خسارے سے تنگ آکر ہیڈ ماسٹر نے اپنا حصہ فرحان کو صرف 92 ہزار روپے میں فروخت کر دیا جو فرحان نے آگے اپنے پڑیالی سیکنڈ کزن کو کامیاب سرمایہ کاری کا جھانسہ دے کر سعودیہ سے بلا کر دوبارہ 1 لاکھ 70 ہزار روپے میں بیچ دیا ۔ اگرچہ فرحان کو پارٹنر کی ضرورت نہیں تھی لیکن جو منافع فرحان کے لئے پارٹنرشپ میں تھا وہ تنہا کاروبار میں کہاں تھا ۔ اسی دوران ہوسٹل کی سالانہ لیز اختتام کو پہنچی اور ہوسٹل سوان گارڈن مین مرکز میں شفٹ ہو گیا ۔ پھر فرحان واپس گیا اور مالک کا مونٹی میں پڑا سریا کولر وغیرہ اٹھا کر بیچ دیا جسکا علم ہونے پر فرحان اور پلازے کے مالک کی ان بن ہوئی ۔فرحان نے کہا میں نے ہی لیا ہے جو کرنا ہے کر لو ۔ مالک طیش میں آکر تھانے گیا اور کہا کہ بے شک آدھے پیسے تم خود رکھ لو میں نے ہر صورت فرحان سے پیسے نکلوانے ہیں ۔ تھانے کا جو کانسٹیبل مالک کے پلازے آیا اس کا مشورہ تھا کہ سوان گارڈن میں مالک کے دو پلازے ہیں ۔ اگر اس نے درخواست درج کروائی تو پولیس اسے مزید پیسے بٹورنے کے لئے ہمیشہ تنگ کرتی رہے گی ۔ تب جا کر وہ ٹھنڈا پڑا ۔ یوں دیکھا جائے تو فرحان کی جیب میں پیسے ڈالنے میں خود نظام کا اپنا ہاتھ ہے ۔ کلرک اور ہوسٹل کا کام اکٹھا کرنا فرحان کے لئے کوئی بڑا مسلہ نہ تھا ۔ فرحان صبح ساڑھے آٹھ بجے اٹھتا اور دوپہر دو بجے دوبارہ ہوسٹل پہنچا ہوتا ۔ سوان گارڈن سے بھارہ کہو موٹرسائیکل پر کم از کم پونے گھنٹے کی مسافت ہے یعنی فرحان اسکول کے کام میں زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے یومیہ لگا رھا تھا ۔اور اس سے فرحان کے بزنس پارٹنر کی طرح سرکاری ملازمتوں کے چسکے کا اندازہ ہو جانا چاہئے کیونکہ دونوں کو اچھی طرح نچوڑا جا سکتا ہے . آخر کونسی پرائیویٹ ملازمت کسی کو آدھا ٹائم لگانے پر پوری تنخواہ دے گی ۔ لالچی فرحان نے اپنے کزن کو بھی نہ بخشا ۔ دوبارہ 27 ہزار روپے ماہوار کا سودا سلف 47 ہزار روپے میں آنے لگا اور ہوسٹل میں چوریں ہونے لگ گئیں ۔ اب خود کزن نے فرحان سے جان چھڑانا چاہی لیکن فرحان صرف اپنے حصے کے ساڑھے 4 لاکھ روپے مانگ رہا تھا جبکہ ہوسٹل میں پوری انویسٹمنٹ 3 لاکھ روپے سے زیادہ نہ تھی ۔ ایسے میں دونوں پڑیالی کزنوں کا واسطہ ایک پاکستان پلٹ انجینیر سے ہوا جسے فرحان نے سوا 1 لاکھ روپے ماہوار منافع کا جھانسہ اور کزن نے چائے پلا کر فرحان کا حصہ ساڑھے 4 لاکھ روپے میں بیچ دیا ۔ جب مہینے کا خود خود حساب کتاب کرنے پر انجینیر کو علم ہوا کہ ہوسٹل میں اسکے حصے کا منافع باورچی کی تنخواہ کے برابر ہے تو انجینیر اور فرحان کی ان بن ہوئی اور سوا 1 لاکھ روپے ماہوار منافع بتانے والے فرحان نے کہا خدا کی قسم کوئی منافع نہیں ہے ۔ فرحان نے اعتراف کیا کہ اس نے انجینیر کو فراڈ لگائیا ہے ۔ اگرچہ اشٹام پر واضح لکھا تھا کہ پانے واجبات پرانے مالکان کی ذمہ داری ہونکے جب ہوسٹل پر 44 ہزار روپے کے مختلف واجبات انجینیر کے علم میں آئے تو فرحان کا نے کہا نہیں دینے جو کرنا ہے کر لو ۔ اگرچہ لڑکوں سے وصول شدہ سکیورٹی کی واپسی نئے مالکان کے ذمے ٹھری جب ویکلاؤڈ کا نیٹ منقطع ہوا تو اسکی سکیورٹی فرحان نے سوان گارڈن مین مرکز میں ویکلاؤڈ کے دفتر جا کر دس بندے لے کر آنے کی دھمکی دے کر وصول کر لی ۔ یہ تو انجینیر کا بچاو ہوگیا کہ پلازے کے مالک نے لیز فرحان کے نام سے ٹرانسفر کرنے سے انکار کر دیا اور انجینیر کی رقم واپس کرنے کا کہا ۔ چونکہ فرحان کا اپنا کزن اسکے ساتھ پارٹنرشپ نہیں چاہتا تھا اس نے انجینیر کو 3 لاکھ 60 ہزار روپے طے کرکے فرحان سے جان چھڑائ جن میں سے 2 لاکھ روپے کی فوری ادائیگی ہو گئی اور بقیہ 1 لاکھ 60 ہزار روپے کی ایک ماہ میں ادائیگی قرار پائی جس کی بعد میں تاریخ پر تاریخ پڑتی رہی ۔ پھر جا کر کزن کی منتوں پر فرحان نے انجینیر کے 90 ہزار روپے کے خسارے سے ہوسٹل کے واجبات ادا کئے ۔ اکٹھے اتنی رقم آنے کے جوش میں اسی ماہ دسمبر 2017 میں فرحان کو اپنڈکس کا عارضہ حق ہو گیا جسکا علاج اس نے سرکاری خرچے پر اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں کروایا ۔ صحت یاب ہوتے ہی فرحان اپنے مہمانوں گے لئے دو رضائیاں لینے کے بہانے رات 11 بجے ہوسٹل آیا جہاں اسے نیچے 3 دکانداروں نے سوزوکی ڈبے میں ہوسٹل سے متعدد سامان لادتے دیکھا جن میں خود پلازے کے مالک کے مخصوص گیسٹ روم کے لوازمات بھی شامل تھے جن کے لئے پلازے کے مالک نے اگلے روز کمرے کمرے کی تلاشی کروائی لیکن وہ ہوسٹل سے کیسے ملتے جب فرحان انہیں لے گیا تھا ۔ دو رضائیوں کے لئے کون پوری سوزوکی کرتا ہے ۔ دو رضائیاں تو موٹرسائیکل کے پیچھے بھی باندھی جا سکتی ہیں ۔ بہرحال دکان والوں کا 3 دن تک یہی بیان رہا اور 3 دن بعد جب دکانوں کا مالک آیا تو اسکے ساتھ ہی دکانداروں کا بیان بھی بدل گیا ۔ اگلے مہینے جنوری 2018 میں فرحان کی اسکول میں عارضی کلرک کی ملازمت ختم یوگئی جس پر ہیڈ ماسٹر نے شکرانے کے نفل ادا کئے ۔ فرحان کچھ عرصہ تک اسلام آباد میں دوسرے نکالے گئے عارضی سرکاری ملازمین کے ساتھ مل کر دھرنے لگاتا رہا اورپھر اپنے گاؤں پڑیال میں گدھی پر چارہ لاد کر بکروں کو کھلاتا رہا جو وہ بڑی عید پر اسلام آباد لے جا کر کوٹھی والوں کو فروخت کرتا ہے جو کہ شائید وہ اس سال نہ کر سکے کیونکہ فی الحال اس کا پورا ہاتھ اور بازو پلاسٹر میں بندھے ہیں ۔ ہوا یہ کہ فرحان اپنے گاؤں پڑیال کے نزدیک اپنے دو دوستوں کے ساتھ موٹرسائیکل پر جا رہا تھا کہ موٹر سائیکل پر تین سواریاں دیکھ کر پولیس کی گشت گاڑی نے انہیں رکنے کو کہا اور انہوں نے آگے سے دوڑ لگا دی اور کچھ فاصلے پر جا کر موٹرسئیکل کا بیلنس کھو بیٹھے ۔اگرچہ پولیس سے بھاگنا بیشتر ممالک میں سنجیدا جرم خیال کیا جاتا ہے جیوے پاکستان میں پولیس نے یہ سوچ کر چھوڑ دیا کہ بچے ہیں جن کے ابھی کھیل کود کے دن ہیں ۔ فرحان کے باپ نے کزن سے کہا کہ فرحان اب فارغ بیٹھا ہے تو اسے سعودیہ بجھوا دو ۔ کسی نے جو فرحان سے بخوبی واقف تھا سنا تو فورا کہا کہ سعودیہ میں فرحان کیسے چلے گا کیونکہ وہاں تو چور کے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں ۔ آج 15 ہزار روپے ماہوار کی سرکاری ملازمتیں کرنے والے فرحان کا پڑیال گاؤں میں ذاتی مکان ہے ۔ اسکے بنک اکاؤنٹ میں حرام کی کمائی کے 11 لاکھ روپے پڑے ہیں ۔ اسکے ساڑھے 3 لاکھ روپے اپنے گاؤں پڑیال کے چئیرمین کے راولپنڈی میں پراپرٹی کے کاروبار میں انویسٹ ہیں ۔ ایک 3 لاکھ روپے کی مہران گاڑی اور ایک ہنڈا موٹرسائیکل ہے ۔ فرسٹ کزن سے منگنی قرار پائی ہے ۔ چلیں 23 سالہ فرحان ابھی صحیع معنوں میں چودھری نہ بنا ہو لیکن جیوے پاکستان میں اسکے چودھری کے بننے امکان کو قطعا مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔
محمد فرحان عرف چودھری فرحان ولد حبیب سلطان ساکن پڑیال تحصیل و ضلع راولپنڈی
اس ویب سائیٹ میں فرحان کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لکھا گیا ۔ اگر ملک میں کوئی قانون ہوتا تو اس ویب سائیٹ کی ضرورت پیش نہ آتی ۔